11-20-2007, 10:42 AM
کُچھ بھی تو نہیں ویسا
جیسا تجھے سوچاتھا
جتنا تجھے چاہا تھا
سوچا تھا تیرے لب پر
کُچھ حرف دُعاؤںکے
کُچھ پھُول وفاؤں کے
مہکیں گی مِری خاطر
کُچھ بھی تو نہیں ویسا
جیسا تجھے سوچا تھا
محسو س یہ ہوتا ہے
دُکھ جھیلے تھے جو اَب تک
بے نام مسافت میں
لکھنے کی محبّت مین
پڑھنے کی ضرورت میں
بے سُور ریاضت تھی
بے فیض عبادت تھی
جو خواب بھی دیکھے تھے
ان جاگتی آنکھوں نے
سب خام خیالی تھی
پھر بھی تجھے پانے کی
دل کسی گوشے میں
خواہش تو بچالی تھی
لیکن تجھے پاکر بھی
اور خود کو گنوا کر بھی
اس حبس کے موسم کی کھڑی سے ہُوا آئی
نہ پھول سے خُوشبوکی کوئی بھی صداآئی
اب نیند ہے آنکھوں میں
ناں دل میں وہ پہلی سی تازہ سخن آرائی
ناں نفط مِرے نکلے
ناں حرف ومعافی کی دانش مِرے کام آئی
نایددہ رفاقت میں
جتنی بھی اذیت تھی
سب میرے ہی نام آئی
کچھ بھی تو نہیں ویسا جیسا تجھے سوچا تھا
جتنا تجھے چاہاتھا
جیسا تجھے سوچاتھا
جتنا تجھے چاہا تھا
سوچا تھا تیرے لب پر
کُچھ حرف دُعاؤںکے
کُچھ پھُول وفاؤں کے
مہکیں گی مِری خاطر
کُچھ بھی تو نہیں ویسا
جیسا تجھے سوچا تھا
محسو س یہ ہوتا ہے
دُکھ جھیلے تھے جو اَب تک
بے نام مسافت میں
لکھنے کی محبّت مین
پڑھنے کی ضرورت میں
بے سُور ریاضت تھی
بے فیض عبادت تھی
جو خواب بھی دیکھے تھے
ان جاگتی آنکھوں نے
سب خام خیالی تھی
پھر بھی تجھے پانے کی
دل کسی گوشے میں
خواہش تو بچالی تھی
لیکن تجھے پاکر بھی
اور خود کو گنوا کر بھی
اس حبس کے موسم کی کھڑی سے ہُوا آئی
نہ پھول سے خُوشبوکی کوئی بھی صداآئی
اب نیند ہے آنکھوں میں
ناں دل میں وہ پہلی سی تازہ سخن آرائی
ناں نفط مِرے نکلے
ناں حرف ومعافی کی دانش مِرے کام آئی
نایددہ رفاقت میں
جتنی بھی اذیت تھی
سب میرے ہی نام آئی
کچھ بھی تو نہیں ویسا جیسا تجھے سوچا تھا
جتنا تجھے چاہاتھا